مغرب میں مسلمانوں کا رویہ

خالد تھتھال

مسلمانوں کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ ایک شیطان سے کم نہیں۔ کچھ لوگ اسے ہلاکو خان سے تشبیہ دے رہے ہیں جو خلافت عباسیہ کے دور میں مسلمانوں پر اللہ کا قہر بن کر نازل ہوا تھا۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جہاں مغربی ممالک میں موجود لوگ ٹرمپ کی مسلمان مخالف پالیسیوں پر سراپا احتجاج ہیں، وہیں تمام مسلمان ممالک میں ایک پراسرار خاموشی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو ٹرمپ سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک خلیجی ملک نے ٹرمپ کی سات مسلمان ممالک سے آنے والے مہاجرین کی پابندی کے دفاع کیا ہے۔

امریکی عدالت ٹرمپ کے فیصلوں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ جب کہ کچھ لوگ  خواہشات بھرے تجزیئے دے رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارتی مدت پوری نہیں کر سکے گا۔ بلکہ کسی بھی وقت اس کا مواخذہ ہونے کی صورت میں اسے عہدہ صدارت چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔

اہم بات یہ نہیں کہ ٹرمپ اپنے ملک میں کس قدر مقبول ہے، یا کتنے لوگ اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں، یا وہ اپنی صدارتی مدت پوری کر پائے گا یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں اسلام اور مسلمان مخالف سوچ جو پہلے نسل پرستی، سیاسی غیر درستگی یا اسلامو فوبیا کے الزام کے ڈر کی وجہ سے پوشیدہ تھی، وہ اب کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ مسلمان جو اب تک مغربی معاشروں کو ایسی سنجیاں گلیاں سمجھ رہے تھے، جہاں اسلامی مرزا یار اپنی مرضی سے پھر سکتا ہے، وہ اس تبدیلی سے سکتے میں آ گئے ہیں۔

ٹرمپ مغربی معاشروں میں اس ابھرتی تبدیلی کا سمبل ہے۔ٹرمپ کا امریکی صدر منتخب ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ اب بہت ہو گیا۔ مغربی معاشروں کا اسلامیانے کا کھیل اب مزید نہیں چل پائے گا۔ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے سے پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔اب خواہ ٹرمپ رہے نہ رہے لیکن مغربی معاشرے اب وہ نہیں رہے جو ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے سے پہلے تھے یا مغربی ممالک میں مقیم مسلمان جس کے عادی تھے۔

ایک حوالے سے یہ ایک مثبت پیش رفت ہوئی ہے کہ جو ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کا موقع ملے گا۔ نئے حالات شایداب مسلمانوں کو مجبور کر یں گے کہ مسلمان مغربی معاشروں میں اپنا متوازی معاشرہ بنانے کی بجائے مقامی معاشرے کا حصہ بننے کا سوچیں۔

امریکہ کے بعد یورپ میں بھی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ اگلا زلزلہ گیرٹ وائلڈرز کے نیدرلینڈز کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں آنے کے امکان بہت زیادہ واضح ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ہر مغربی ملک میں دبے لفظوں یا کھلم کھلا مسلمانوں کا مقامی معاشروں کے ساتھ رویہ زیر بحث آ رہا ہے۔ سب اچھا کی گردان کی بجائے مسلمانوں کو معائنے کی بھٹی سے گزارا جا رہا ہے۔

پروفیسر رُود کوپمان جو یونیورسٹی آف برلن میں عمرانیات اور تحقیق ترک وطن کے پروفیسر ہونے کے علاوہ برلن سوشل سائنس سنٹر کے شعبہ انٹیگریشن ریسرچ کے ڈائرکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ایک جرمن ویب سائٹ کو انٹریو دیتے ہوئے یورپی یونین کو مسلمان مہاجرین اور آبادکاروں کے حوالے سے پیش آنے والے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ

اس وقت دنیا میں ایک ارب بالغ مسلمان ہیں۔ جن میں سے پچاس کروڑ مسلمان انتہائی رجعت پسند ہیں۔ جن کے نزدیک خواتین کے حقوق، ہم جنس پرستوں اور دوسرے عقیدے کے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پروفیسر کے بقول ان میں سے پانچ کروڑ یا اس تعداد سے بھی زیادہ مسلمان ایسے ہیں جو اپنے مذہب کے دفاع کی خاطر تشدد یا دہشت گردانہ کاروائی کو جائز سمجھتے ہیں۔ پروفیسر نے یورپی یونین کو مشورہ دیا ہے کہ ہر اس پناہ گزین کو اپنے ہاں آنے سے روکا جائے جب تک اس کی مکمل شناخت کی تصدیق نہیں ہو پاتی۔

پروفیسر نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ان میں سے ہر کوئی براہ راست طور پر تشدد کی کاروائی میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہو لیکن یہ انتہا پسندوں کی مدد کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انہیں پناہ مہیا کرتے ہیں، یا جب وہ کوئی انتہاپسندانہ کاروائی دیکھیں تو اپنا منہ بند رکھتے ہیں۔

 ♦

Comments are closed.