آصف جیلانی
صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں اتنے زیادہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسرشامل کئے ہیں ۔ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد کسی صدر کی کابینہ میں اتنے فوجی افسر شامل نہیں تھے۔ یہ ٹرمپ کا منفرد خود تردیدی نفسیاتی رویہ ہے ، انتخابی مہم کے دوران فوج اور فوجی جرنیل ان کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں ۔ یہاں تک انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان جرنیلوں کو داعش کے بارے میں کچھ علم نہیں ان سے زیادہ تو وہ اس تنظیم کے بارے میں جانتے ہیں۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جرنیلوں کے ساتھ رومانس میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اپنی انتظامیہ میں جرنیلوں کو شامل کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ حلف اٹھانے سے پہلے ہی ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے تین اہم عہدوں پر جرنیلوں کو نامزد کردیا تھا۔ ان میں وزیر دفاع کے عہدہ کے لئے جنرل جیمس میٹیس کومنتخب کیا ۔ انہیں خلیج کی پہلی جنگ ، افغانستان اور عراق کی جنگ میں حصہ لینے کے بعد فوج سے ریٹائر ہوئے صرف تین سال ہوئے ہیں جب کہ قانون کے مطابق ، وزیر دفاع کے عہدہ کے پر کسی جرنیل کو اس وقت تک مقرر نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ ریٹائرمنٹ کے سات سال پورے نہ کر لے ۔ اس کے باوجود سینیٹ نے انہیں استثنا دے کر ان کی تقرری کی توثیق کر دی ہے۔
ہوم لینڈ سیکورٹی کے عہدہ پر ریٹائرڈ جنرل کیلی کو فایز کیا گیا ہے اور قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے اسلام مخالف جرنیل مایئکل فلن کو مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ اپنے عہدہ پر صرف ۲۵ روز رہے، اور روس کے سفیر سے رابطہ کے بارے میں غلط بیانی او ر صدر کا اعتماد کھو دینے پر انہیں برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔گذشتہ سال 18 نومبر کو جب ٹرمپ نے جنرل فلن کو قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا تھا تو اس وقت بہت سے لوگوں نے سخت حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ 2012میں اوباما نے انہیں دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے عہدہ سے اور ایران کے بارے میں ان کی پالیسی کی حدود سے تجاوز کرنے پربرطرف کردیا تھا۔ جنرل فلن اسلام کو سرطان قرار دیتے ہیں اور اسلام کو مذہب کی جگہ ایک سیاسی نظریہ سمجھتے ہیں۔
جنرل فلن کی برطرفی کے بعد اب جنرل میک ماسٹر کو قومی سلامتی کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔جنرل میک ماسٹر حاضر سروس جنرل ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک حاضر سروس جنر ل کو قومی سلامتی کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ جنرل میک ماسٹر نے امریکی تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ جنرل میک ماسٹر کے نائب جنرل کیتھ کیلاگ ہوں گے۔
ان پانچ جرنیلوں کے علاوہ ٹرمپ کی کابینہ میں ایسے وزیروں کی بڑی تعداد ہے جن کا فوج سے تعلق رہا ہے۔ مثلا سی آئی اے کے نئے سربرہ پومپیو ، تجارت کے میدان میں آنے سے پہلے فوج میں کپتان تھے۔ محکمہ داخلہ کے سربراہ زینیٹ ایوان نمایندگان میں منتخب ہونے سے پہلے دس سال تک نیوی سیلز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ٹرمپ کی انتظامیہ میں فوجیوں کی بھر مار پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ آخر جرنیلوں پر فریفتہ کیوں ہیں؟ ٹرمپ کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنے اسکول کے زمانہ میں فوجی اکادمی میں تو کچھ عرصہ رہے ہیں لیکن انہیں فوج کی وردی زیب تن کرکے فوج میں خدمات انجام دینے اور کسی جنگ میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا ہے بلکہ ویت نام کی جنگ سے بھی انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اب وہ صدر بننے کے بعد کمانڈر انچیف بنے ہیں اس لئے ان کی خواہش ہے کہ کمانڈر انچیف کے اردگرد جرنیل رہیں۔
ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کے سیاست دانوں کی کرپشن کا قلع قمع کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے جرنیل ، ضابطہ اخلاق کے پابند ، ڈسپلن کے حامل اور قابل اعتماد ہوتے ہیں لہذا یہ کرپشن کے خاتمہ میں بے حد ممد ثابت ہوں گے۔ لیکن جنرل فلن کے سلسلہ میں ٹرمپ کو جو تلخ تجربہ ہوا ہے اس کی وجہ سے بلاشبہ جرنیلوں پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
امریکی صدر کی کابینہ میں فوجیوں کی شمولیت کا سلسلہ سب سے پہلے دوسری عالم گیر جنگ کے بعد،ہیری ٹرومین کے زمانہ سے شروع ہوا تھا۔ انہوں نے دوسری جنگ میں شہرت حاصل کرنے والے جنرل جارج سی مارشل کو وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور مختصر عرصہ کے لئے وزیر دفاع بھی۔ جنرل مارشل کی منفرد حیثیت تھی کیونکہ انہوں نے جنگ جیتی تھی لیکن ٹرمپ کی کابینہ کے جرنیلوں نے افغانستان اور عراق میں تو جنگیں لڑیں ہیں لیکن کسی کو کوئی جنگ جیتنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا ہے۔
امریکا میں خانہ جنگی کے دوران اور اس کے بعد، بیشترجرنیلوں نے صدارتی انتخابات لڑے ہیں اور بر سر اقتدار رہے ہیں۔ یہ امریکا کی پرانی روایت رہی ہے ، جو 1952تک جاری رہی ہے ۔ جنرل آیزن ہاور آخری جرنیل تھے جو صدارتی عہدہ پر فائر ہوئے تھے۔ ایک عرصہ کے بعد امریکی سیاست میں فوج کا اثر رونلڈ ریگن کے دور میں دوبارہ بڑھا ، جب انہوں نے فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ غالباً یہ ریٹائرڈ جرنیلوں کا خوف تھا کہ 1967میں صدر لنڈن جانسن نے ویت نام سے جنرل ویسٹ مورلینڈ کی وطن واپسی میں تاخیر کی، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ جنرل وطن واپس آکر صدارتی انتخاب کے میدان میں نہ کود پڑیں۔ پچھلے کئی دہائیوں سے امریکا میں یہ روایت پڑ گئی ہے کہ صدارتی امیدوار ، فوج کے ریٹایرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سنہ2004میں بش کے خلاف صدارتی امیدوار جان کیری نے بحریہ کے اپنے سابق ساتھیوں کے علاوہ 12ریٹایرڈ جرنیلوں کی حمایت حاصل کی تھی۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح 2008میں اوبامانے جنرل ویلزلے کلارک اور جنرل کولن پاول کی حمایت حاصل کی تھی ۔اب ٹرمپ کے انتخاب میں ریٹائرڈ جرنیلوں نے جس انداز سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا ہے اور دونوں جماعتوں کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں جس زور شور سے ، ان کا ساتھ دیا ہے، اسے سابق فوجیوں کی طرف سے سیاست میں مداخلت تصور کیا جارہا ہے ۔
ویسے بھی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں سابق جرنیلوں کی شمولیت پر سیاسی حلقوں میں سخت تشویش ظاہر کی جارہی ہے ، انہیں خدشہ ہے کہ ایسے حالات میں جب مشرق وسطی سے لے کر مشرق بعید تک جا بجا جنگیں بھڑکنے کا خطرہ ہے، کابینہ میں جرنیلوں کی بہتات ، ملک کو جنگوں کی آگ میں دھکیل سکتی ہےَ ۔ان حالات میں، جب کہ کابینہ میں ایک طرف سابق فوجی افسر حاوی ہیں اور دوسری جانب ارب پتی سرمایہ داروں اور بینکاروں کی بڑی تعداد ہے ،اور دور دور تک سیاسی بصیرت رکھنے والے عناصر دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔
سیاسی مبصرین کو وائٹ ہاؤس میں آمرانہ رجحانات کے فروغ کا خطرہ بڑھتا نظر آتا ہے، وہ بھی ایسے وقت جب کہ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سو انتشار اور خلفشار نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کو برسر اقتدار آئے پانچ ہفتے ہوئے ہیں۔اس دوران کیون پیاک یونیورسٹی کے رائے عامہ کے تازہ ترین جائزہ کے مطابق ٹرمپ کی پالیسیوں اور فیصلوں سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد صرف 38فی صد ہے جب کہ 55 فی صد عوام ان کے فیصلوں کے خلاف ہیں۔رائے عامہ کا یہ جائزہ بلا شبہ صدر ٹرمپ کے لئے سخت تشویش کا باعث ہے۔
♥
One Comment