آصف جیلانی
یہ جنوری 1962ء کی بات ہے، دلی میں ممتاز صحافی اور دانشور دیس راج گویل سے ہندوستان کی سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اس دوران جب ذکر ہندو قوم پرستی کا ہوا تو انہوں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ جلد یا دیر وہ دن آنے والا ہے جب ہندوستان پر کٹر ہندو قوم پرست نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(RSS)کی حکمرانی ہوگی۔ میں نے سخت تعجب کا اظہار کیا کہ اس وقت جب کہ سیکولر کانگریس سیاست پر چھائی ہوئی ہے ،دوسرے آر ایس ایس ، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت نہیں اور پھر اس کی سیاسی چوب دار جماعت جن سنگھ کے 451اراکین کی لوک سبھا میں لے دے کر صرف دو اراکین ،اٹل بہاری واجپائی اور بلراج مدھوک ہیں ،آرایس ایس کی حکمرانی کیوں کر ممکن ہے۔
دیس راج گویل نے کہا کہ جوانی میں میرا آرایس ایس سے قریبی تعلق رہا ہے جو 1950تک جاری رہا ہے ۔ اس کے بعد سے میری اس تنظیم پر گہری نظر رہی ہے اور میں نے اس کی تاریخ ، اس کے فلسفہ ، اس کے تنظیمی ڈھانچہ اور اس کے مقاصد کا بھرپور مطالعہ کیا ہے ۔
جس زمانہ میں گویل صاحب سے ملاقات ہوئی تھی ،ان دنوں وہ جریدہ سیکولر ڈیموکریسی کے ایڈیٹر تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ جن سنگھ کے لوک سبھا میں صرف دو اراکین ہیں لیکن آر ایس ایس نے 1925سے جب اس کا قیام عمل میں آیا تھا، نئی نسل پر ہندو قوم پرستی کے جذبہ کو اس انداز سے پروان چڑھایا اور فروغ دیا ہے کہ یہ ایک دن آتش فشاں کی طرح پھٹے گا۔ گویل صاحب کا کہنا تھا کہ ہندووں اور خاص طور پر نوجوانوں کو بڑے منظم طریقہ سے یہ احساس دلایا گیا ہے کہ چندر گپتا موریہ کے بعد جس نے 325ء میں ہندوستان کو پہلی بار شمال سے لے کر جنوب تک متحد کیا تھا، ہندوستان ، غیر ملکیوں کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کا غلام رہاہے۔
نئی نسل کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ ایک ہزار چھ سو سال بعد 1947 میں پہلی بار ہندوستانیوں کو آزادی ملی ہے لیکن یہ آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک ہندوستان میں ہندوتا کا مکمل راج قایم نہیں ہوتا۔ گویل صاحب کا کہنا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں یہ لاوا اندر اندر ہی پک رہا ہے، جو کسی وقت آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے۔
سنہ1998میں جب اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی، جو جن سنگھ کے بطن سے پیدا ہوئی تھی ،حکومت بنی تو ہندو قوم پرستوں میں یہ احساس جاگزیں ہوا تھا کہ وہ ہندو ریاست کے قیام کی منزل کے قریب آپہنچے ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں دوسری جماعتیں بھی شامل تھیں لہذا ، واجپائی ہندو ریاست کے قیام کی منزل حاصل نہ کر سکے اور 2004کے انتخابات ہار گئے۔
سنہ 2014کے عام انتخابات کے لئے لال کرشن اڈوانی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت اعظمی کے امیدوار کی حیثیت سے دعوی دار تھے لیکن ان کی جگہ آر ایس ایس نے نریندر مودی کو ترجیح دی، جن کے دور میں گجرات میں 2000میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے جن میں790 مسلمان اور 250 ہندو قتل ہوئے تھے۔مودی کے سر پر گجرات میں تین بار انتخابات جیتنے کا تاج بھی سجا ہوا تھا۔
سنہ2014کے عام انتخابات میں پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوتا کے نعرے اور ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی حمایت کے بل پر اتنی بھاری اکژیت حاصل کی کہ اسے حکومت سازی میں کسی اور جماعت کی مدد کی ضرورت نہ رہی۔ نریندر مودی نے ہندوتا کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے پہلے میدان صاف کرنے اورمختلف ریاستوں میں انتخابات جیتنے کی حکمت عملی تیار کی۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش تھی۔ جہاں ، مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ فی صد اور پسماندہ دلتوں کی تعداد 2کروڑہے ۔
لیکن نریندر مودی مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ہندو اکثریت کے بل پر اتر پردیش کو فتح کرنے میں کامیاب رہے ۔ گورکھپور کے ناتھ مندر کے مہنت یوگی ادتیاناتھ کو وزیر اعلی کے سنگھا سن پر بٹھا کر نریندر مودی نے ہندوتا کا پرچم لہرایا۔ یوگی وزیر اعلی نے نعرہ تو مودی کا لگایاہے۔ ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس(ترقی)‘‘ لیکن عملی طور پر وہ ہندو راشٹر کے قیام کی راہ پر گامزن ہیں۔ یوگی نے اپنی 50کنی کابینہ میں صرف ایک مسلمان وزیر ، محسن رضا کو شامل کیا ہے ، جب کہ ریاست میں مسلمانوں کی کل آبادی ۱۳ کروڑ ہے۔
حکومت سنبھالتے ہی یوگی وزیر اعلیٰ نے پوری ریاست میں غیر قانونی مذبحہ خانے بند کرنے کا حکم دیاہے۔ جواز یہ بتایا ہے کہ بیشتر مذبحہ خانوں کے لائسنس کی معیاد ختم ہوگئی تھی۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں صرف غیر قانونی مذبحہ خانوں کو بند کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ ان مذبحہ خانوں میں سے کسی میں گائے ذبح نہیں کی جاتی تھی بلکہ بھینس ، بیل اور دوسرے مویشی کاٹے جاتے تھے ۔
ان مذبحہ خانوں کے بند ہونے سے ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے ، جن میں دیہات میں مویشی پالنے والے، گوشت غیر ممالک میں برآمد کرنے والے اور چمڑے کی صنعت میں کام کرنے والے شامل ہیں۔ اتر پردیش کے مذبحہ خانوں میں بھینس اور بیل کا گوشت چالیس ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا اور چمڑے کی برآمد سے آمدنی ہوتی تھی۔
یوگی وزیر اعلی ، اب مسلمانوں سے یوں انتقام لے رہے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوحکم دیا ہے کہ وہ ہوسٹلوں کے طعام خانوں میں گوشت پکانا بند کر دیں۔ اب ان میں طلباء کو صرف ،دال اورترکاریاں کھانے کو ملیں گی۔
اب ہندوستان کو مکمل طور پر ہندو ریاست بنانے کے لئے ، آر ایس ایس کے سربراہ ، موہن بھاگوت کو صدر مملکت کے عہدہ پر فایز کرنے کے لئے مہم چلائی جارہی ہے۔ موجودہ صدر مملکت ،کانگریس کے پرناب مکر جی ہیں جن کے عہدہ کی معیاد جولائی میں ختم ہورہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیشتر رہنما اور اراکین ، موہن بھاگوت کو صدر مملکت منتخب کرنا چاہتے ہیں لیکن اس معاملہ پر تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ نریندر مودی ، بھاگوت کی جگہ لال کرشن اڈوانی کو صدر مملکت کے عہدہ پر دیکھناچاہتے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کی ہدایت پر اڈوانی کی جگہ نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا۔مودی اب ان کی اشک شوئی کرنا چاہتے ہیں، دوسرے نریندر مودی، اڈوانی کو اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں اور انہیں صدر منتخب کر کے وہ گرو کو دکشنا پیش کرنا چاہتے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ ،صدر مملکت کے لئے آر ایس ایس کے سربراہ کے انتخاب کی مخالفت کرے گی اور ان کے مقابلہ پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔ لیکن کانگریس کی جیت کا امکان نہیں کیونکہ صدر مملکت کا انتخاب ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ملک کی تمام ریاستی اسمبلیوں کے اراکین کرتے ہیں ، جن میں اکثریت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین کی ہے۔
کوئی 54سال پہلے ہندوستان کے ممتاز صحافی اور دانشور دیس راج گویل نے جو خطرہ ظاہر کیا تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھارتا نظر آرہا ہے جب کہ ہندوستان ، ہندو ریاست کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔
♦
One Comment