تاریخی فیصلہ

آصف جیلانی 

بلا شبہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی فیصلہ ہے۔ تاریخی اس اعتبار سے کہ قیام پاکستان کے بعد پچھلے ستر سال کے دوران، پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے مکمل اتفاق رائے سے نااہل قرار دیا ہے ۔ تاریخی اس لحاظ سے کہ اتنے اہم مقدمہ میں سپریم کورٹ نے پہلی بار مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ دیا ہے ۔ اب تک جتنے بھی اہم مقدمات میں فیصلے دیے گئے ہیں وہ اتفاق رائے کے بجائے منقسم اور اختلافی رہے ہیں، بشمول مولوی تمیز الدین خان کے مقدمہ میں جس میں انہوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے بارے میں گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلہ کو چیلنج کیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں منقسم تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی تاریخی ہے کہ میاں نواز شریف کو نااہل تو قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ انہیں کتنی مدت کے لئے نااہل قرار دیا گیا ہے ، عمر بھر کے لئے یا پھر کسی خاص مدت تک کے لئے ، یہ ابہام اب تک سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ میں نہیں دیکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے ثمینہ خاور کی نااہلی کے مقدمہ میں یہ رائے ظاہر کی تھی کہ کسی کو آئین کی شق 62/63کے تحت عمر بھر کے لئے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کا امکان ہے کہ نااہل قرار دیا جانے والا فرد آیندہ اپنی اصلاح کر لے ۔

میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی اس بینچ نے نہیں دیا جو جی آئی ٹی کی رپورٹ پر غور کرنے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنے کے لئے تشکیل دی گئی تھی بلکہ اچانک فیصلے والے دن ، پانچ ججوں کو بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے بڑی عجلت میں سماعت کر کے میاں نواز شریف کی نااہلی کا حکم صادر کیا۔ یہ بھی تاریخی عمل ہے کہ اتنے اہم مقدمہ میں جس میں منتخبوزیر اعظم کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہو، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بینچ کی سربراہی نہیں کی اور نہ اس میں شامل ہوئے۔

یہ فیصلہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ نواز شریف کے خلاف اصل الزام تو پاناما کیس میں کرپشن کا تھا لیکن انہیں نا اہل ، اس بناء پر قراردیا گیا کہ انہوں نے 2013کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں میں وہ تنخواہ درج نہیں کی جو دبئی میں ان کے بیٹے کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیرمین کی حیثیت سے ان کی متعین کی گئی تھی لیکن جو انہوں نے وصول نہیں کی ، لہذا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور وزیر اعظم کے عہدہ کے اہل نہیں۔ واقعی یہ فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ پاناما کے اصل مقدمہ میں میاں نواز شریف پر الزام کچھ اور تھا اور ان کو مجرم کسی اور الزام کی بناء پر قرار دیا گیا، اور وہ بھی اس تنخواہ کو ان کا اثاثہ قرار دیا گیا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس بناء پر بھی تاریخی ہے کہ یہ پہلا فیصلہ ہے جو عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر ، صرف عدالت کی طرف سے مقرر کردہ جی آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اور پھر میاں نواز شریف کو ملک کی اعلی ترین عدالت نے ، ان کے خلاف الزامات کے تحت مقدمات کا عمل مکمل ہوئے بغیر نااہل قرار دینے کا فیصلہ کر کے انہیں اپیل کے حق سے محروم کر دیا ہے کیونکہ اس سے اعلی کوئی عدالت نہیں ۔ یہ بہت سے قانون دانوں کی نظر میں انصاف پر مبنی نہیں۔ یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ میں ریویو کا حق ہے۔ لیکن یہ ریویو وہی بینچ سنے گی جس نے انہیں نا اہل قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ریویو کے تحت فیصلہ میں تبدیلی کے امکانات بے حد محدود ہوتے ہیں۔

یہ بھی فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو مجرم قرار دینے کے بعد ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دایر کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی تاریخی فیصلہ ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک جج ، اس ریفرنس کی نگرانی کرے گا۔ ایسی کوئی روایت اس سے پہلے نظر نہیں آتی کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے کسی کے خلاف ریفرنس کی نگرانی کی ہو۔

آخر میں یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس فیصلہ نے پاکستان کی تاریخ کی عجیب و غریب روایت کے تسلسل پر مہر ثبت کر دی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پچھلے ستر سال کے دوران ملک کا کوئی وزیر اعظم اپنی معیاد پوری نہیں کر سکا ہے۔ یہ سلسلہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے شروع ہوا جنہیں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فوجی طالع آزماوں نے وزراء اعظم کی بر خاستگی اور برطرفی کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدلیہ نے اس میدان میں اپنا اختیار استعمال کیا ہے۔ 

جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے صحیح کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ادھورا رہے گا اگر کرپشن کے خلاف سب کا احتساب نہیں ہوتا۔ کرپشن میں ملوث تمام سیاست دانوں کے ساتھ جیسے کے جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ملک کو کرپشن سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک کہ فوج کے جرنیلوں اور عدلیہ کے ججوں کا احتساب نہیں ہوتا ۔ 

کرپشن کے خلاف ہم گیر مہم کے لئے ملک کی سیاسی جماعتوں کے موجودہ موروثی اور جاگیرداری نظام میں اصلاح بھی لازم ہے کیونکہ موجودہ نظام میں تبدیلی کے بغیر کوئی صادق اور امین سیاسی کارکن جماعت کی اعلی قیادت کا زینہ نہیں چڑھ سکتا ۔ اسی کے ساتھ ایک آزاد الیکشن کمیشن کا قیام بھی لازمی ہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان اور ایران سے لے کر برطانیہ تک ، آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہی منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ضامن ہیں۔

اگر ان ملکوں میں آزاد الیکشن کمیشن قائم ہوسکتے ہیں تو پاکستان کی سر زمین نے کیا خطا کی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کے اشاروں پر کھیلنے والے الیکشن کمیشن سے نجات نہیں مل سکتی۔ ہاں یقیناًسپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس صورت میں واقعی تاریخی ہوگا اگر کرپشن کے خاتمہ اور سیاسی جماعتوں کے نظام اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لئے اصلاحات کا آغاز ہو۔ 

آخر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔۔مقصد میاں نواز شریف کی حمایت کرنا نہیں محض انصاف اور قانون کے نقطہ نگاہ سے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں مقصد ان کو پیش کرنا ہے۔ 

 

4 Comments