حکمرانوں کے خونی انقلاب کے دعوے

بیرسٹر حمید باشانی

اگر احتساب نہ ہوا تو خدا نخواستہ خونی انقلاب آ سکتا ہے۔ یہ بات وزیر اعطم پاکستان نے جھنگ میں خطاب کرتے ہوئے دہرائی ہے۔ یہ وزیر اعظم کے اپنے اوریجنل الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ انہوں نے یا ان کے تقریر نویس نے دوسرے حکمرانوں سے مستعار لیے ہیں۔ یہ الفاظ موجودہ اور ماضی کے کئی حکمرانو ں کا پسندیدہ منتر رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں یہ دھمکی نما بیان پاکستان کے مختلف حکمرانوں کی زبان سے تسلسل سے ادا ہوتا رہا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ اس بیان کا مخاطب کون ہے ؟ وہ کون ہے جس کو خونی انقلاب سے ڈرایا جاتا ہے ؟ وہ کون سی ایسی نادیدہ قوت ہے جو وسائل کی اصل مالک ہے۔ جو حکمرانوں کو احتساب سے روکتی ہے۔ جو ان کوغربت کے خاتمے کے لیے وسائل استعمال کرنے نہیں دیتی۔ جونا انصافی کے خاتمے کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ جو ان کو دولت کی منصفانہ تقسیم سے روکتی ہے ؟

ستم ظریفی کی بات یہ کہ حکمران یہ منتر اس وقت زیادہ زور شور سے دہراتے ہیں جب وہ بظاہر مضبوط اور با اختیار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ منتر ایک وزیر اعلی اس وقت زیادہ تواتر سے دہراتے تھے جب پنجاب کے خزانوں اور اختیارت کی کنجی بلا شرکت غیران کے پاس اور مرکز کے خزانے اور اختیارات ان کے خاندان کے پاس تھے۔ اس وقت وہ بڑے تسلسل سے یہ کہتے تھے کہ اس ملک سے غربت ، نا انصافی اور ظلم ختم نہ ہوا توخونی انقلاب آ سکتا ہے۔ اس منتر کے سا تھ ساتھ حکمران طبقات پاکستان کے انقلابی اور ترقی پسند شاعروں کے انقلابی شعر بھی عوام کو سناتے رہتے ہیں۔ جن میں بغاوت اور انقلاب کا پیغام ہوتا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ حکمرانوں کے اس دھمکی امیز پیغام کا مخاطب بے چارے عوام تو ہو نہیں سکتے۔ تو ان کا مخاطب کون ہے۔ وہ کون ہے جو ان کو غربت اور نا انصافی کے خاتمے کے لیے وسائل کے استعمال سے روک رہا ہے ؟ اور حکمران اسے خونی انقلاب کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہ خوش کن بات ہے کہ حکمران کم از کم یہ مانتے ہیں بلکہ بار بار اس تلخ حقیقت کا اعلان کرتے ہیں کہ عام آدمی غربت کا شکار ہے۔ ناانصافی کا شکار ہے۔ اور اس صورت حال کا تدارک ضروری ہے۔ تدارک تب ہی ہو گا جب غربت ختم ہو گی۔ نا انصافی ختم ہو گی۔

اگر وہ واقعی اس کا تدارک چاہتے ہیں تو انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ملک میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔ کسی بھی سماج میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا طریقہ انقلاب ہوتا ہے۔ انقلاب کے ذریعے قابض اور بالادست طبقات سے وسائل چھین کر غریب اور محروم طبقات میں تقسیم کر دئیے جاتے ہیں۔ جیسا کے 1917کے بالشویک انقلاب اور 1949کے ماؤسٹ انقلاب سمیت دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ملکوں میں کیا گیا۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا دوسرا طریقہ ایک آئینی بندو بست یا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ایک ارتقائی عمل میں بتدریج دولت کو مالدار طبقات سے لیکر غریب طبقات پر خرچ کیا جاتا ہے۔

سویڈن اور ناروے وغیرہ میں اس طریقہ کار کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے ہاں فی الوقت ان میں سے کوئی ایک طریقہ بھی موجود نہیں۔ ایک مکمل انقلاب کے لیے ملک میں ایک بائیں بازو کی مقبول عام ترقی پسند پارٹی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایسی پارٹی کے لیے معروضی اور مو ضوعی حالات تو موجود ہیں ، لیکن پارٹی نہیں۔ دوسرا طریقہ یعنی آئینی بندو بست یا عمرانی معاہدہ بھی ہمارے ہاں موجود نہیں۔

ملک میں ایک طرف جاگیرداری جیسا فرسودہ ترین نطام ابھی تک قائم ہے اور دوسری طرف ٹیکس جیسا بنیادی نظام بھی موجود نہیں جو دولت کی تقسیم کا کم از کم اور کمتر طریقہ ہے۔ ہمارے ہاں سالانہ بجٹ کے ذریعے جو وسائل مختص کیے جاتے ہیں ان میں وسائل کا بیشتر حصہ طاقت ور اور با اثر قوتوں کو دے دیا جاتا ہے اور کم خوش قسمت اور پسے ہوئے طبقات کے حصے میں جو آتا ہے وہ ان کا مقدر بدلنے کے لیے نا کافی ہے۔

حکمران اگر واقعی خونی انقلاب سے ڈرتے ہیں تو انہیں غربت، نا انصافی اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ وگرنہ وہ انقلاب سے ڈرسکتے ہیں یا کسی کو ڈرا سکتے ہیں ، مگر اسے برپا ہونے سے نہیں روک سکتے۔ مگر ضروری نہیں کہ اکیسویں صدی کے اس عشرے میں بھی انقلاب لازمی طور پر خونی یا پر تشدد ہی ہو۔

آج کی دنیا میں پر امن اور جمہوری انقلاب کے کئی زیادہ امکانات ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان سمیت کسی ملک میں کوئی گولی چلائے بغیر یا خون بہائے بغیر بھی انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور حکمرانوں کو اس انقلاب سے ڈرنا چاہیے۔ 


Comments are closed.