بلوچستان میں ادبی فیسٹیولز اور نوآبادیاتی ذہنیت


‏‎اگر آپ محتاط نہیں ہونگے تو میڈیا ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم پیش کرکے تمہیں مظلوم سے نفرت کرنا سکھائے گا۔میلکم ایکس


تحریر:  مہرجان

‏‎“میں کسی بھی قومیت پہ یقین نہیں رکھتا”
‏‎ “
میں کسی بھی نظریہ پہ یقین نہیں رکھتا”

‏‎“انسانیت سے بڑھ کر نہ کوئی قومیت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ” یہ وہ جملے ہیں جو اکیڈیمیا کے نام پہ بڑی بڑی یونیورسٹیز میں بڑے بڑے اہل دانش پڑھاتے ، دہراتے اور سکھاتے ہیں ،ان جملوں کے پیچھے چھپے ہوئے مصنوعی تصورات کو رٹے کے ذریعے ذہنوں میں بٹھا کر طلباء کو ایک ڈسکورس کا حصہ بناتے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف ان کی سمجھ بوجھ بس اتنی ہی ہوتی ہے،اور ان سے توقع بھی اس سے زیادہ نہیں کی جاسکتی دوسری طرف یہ بطور آلہ پاور پولیٹکس کے ایجنڈوں کا حصہ بھی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

بے شک ان کی انگریزی نثر اچھی ہوگی اور ایسی نثر نگاری اشرافیہ کی نمائندہ اخباروں کی زینت بھی بنتی ہوگی جو کسی بھی “سی ایس ایس” کے امیدوار کی امتحان کی تیاری کا سبب بنتا ہے، لیکن نثر کے اندر چھپی ہوئی “پاکستانیت” کسی نہ کسی کے سامنے ہی آشکار ہوتی ہوگی۔ کہ کائناتی شہری کا ڈھول پیٹنے والا ، امن و آشتی کا پروپیگنڈہ کرنے والا اکیڈیمیا میں قومیت ، نظریہ کو پس پشت ڈال کر “دو قومی نظریہ” پہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے یہ ان یا ان جیسوں کی نثر نگاری کا خاصہ ہے۔

‏‎بلوچستان کے کسی ادبی فیسٹیول میں پرویز ہود بھائی کو بطور مہمان خاص بلا کر جس طرح شادیانے بجائے گئے یہ ایک نوآبادیاتی ذہن کی واضح عکاسی ہے، کہ وہ بہت جلد انگریزی نثر ، انگریزی لہجہ ،ٹائی پینٹ اور اس پہ مزید قائد اعظم یونیورسٹی کے سابقہ پروفیسر اور عصر حاضر کے “کائناتی شہری” سے متاثر ہوتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف پروفیسر ہود بھائی نے نہ جانے کیا ذہن بناکر فیسٹیول میں شرکت کرنے کی حامی بھرلی۔اس حوالے سے اس کی ذہنی اشکالات کیا ہوں گی، لیکن اس ادبی فیسٹیول کے بعد جس طرح انہوں نے یک دم سے اک کالم “ ریاست کی مدح سرائی”میں لکھ ڈالا۔

اس سے ، اس کی قومیت ، نظریہ انسان دشمنی کُھل کر سامنے آ جاتی ہے، اکثرو بیشتر میں یہاں ان جیسوں کی علمیت و انسان دوستی کا بھونڈا کھولتا رہتا ہوں اس لیے مجھے آج تک کسی “مولوی” کی طرف سے کبھی بھی تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ہمیشہ انہی “پڑھے لکھے” پروفیسرز، لبرلز ، روشن خیال تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے مکالمہ کے بجائے تضحیک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

‏‎پروفیسر صاحب ادبی فیسٹول سے واپسی پہ جب ففتھ جنریشن وار کا سپاہی بن کر جس طرح بلوچستان کے حوالے سے کالم لکھتے ہیں(ان کے کالم کے اردو ترجمہ میں ترمیم کی گئی ہے ) باقاعدہ تنظیموں کا نام لے کر انہیں دہشت گرد تنظیم قرار دے کر دراصل باقی ماندہ بلوچستان کو یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ بلوچستان میں موجود بلوچ طلباء “دہشت گرد تنظیموں” کے حق میں نہیں ہیں۔

پہلی بات یہاں کی “حریت پسند تنظیموں” کو پروفیسر صاحب کس کھاتے میں دہشت گرد تنظیم کہہ رہا ہے ؟ کیا وہ “دو قومی نظریہ” کا علمبردار ہے؟ کیا وہ “پاکستانیت” کو مانتا ہے؟ کیا وہ “انسان دشمنی” کو مانتا ہے ؟ جب وہ ایک طرف یہ دعوی رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی نظریہ کا حامی نہیں ، وہ کسی بھی قومیت کو نہیں مانتا ، وہ صرف انسانیت پہ یقین رکھتا ہے تو پھر کسی بھی تنظیم کو جو ایک کالونائزر کے خلاف مزاحمت کررہی ہے وہ کیسے دہشت گرد تنظیموں کے فہرست میں لے آیا؟

جبکہ اس کے مد مقابل قابض کے ایک فوجی افسر سے اپنی ملاقات کا احوال کچھ اس طرح دینا کہ وہ “کاکول گریجویٹ” اور ذہین انسان سے ملا ، کیا ایک زمین زادے کو دہشت گرد قرار دینا اور ایک قابض کو فقط اس لیے ذہین قرار دینا کہ وہ کاکول گریجویٹ ہے دانشورانہ بد دیانتی نہیں ہے ؟

ففتھ جنریشن وار کا سپاہی پرویز ہود بھائی جو انسانیت کا اتنے بڑے دعوی دار ہے کیا اسے وہاں چیک پوسٹس پہ انسانوں کی تذلیل نظر نہیں آئی ؟ یا بلوچ ان کے لیے کیڑے مکوڑے ہیں ؟ کیا اسے وہاں کالونائزیشن اور ریاست کا ننگا ناچتا جبر نظر نہیں آیا ؟ یا فقط کسی گیسٹ روم میں ٹی بریک کی رنگینیاں نظر آئیں؟ لیکن ریاستی بینائی کی داد تو بنتی ہے کہ اس ساری صورتحال میں اسے وہاں زمین زادوں کی “دہشت گردی” نظر آئی ۔

اسی طرح صولت ناگی سے بھی اس حوالے سے ایک دفعہ مکالمہ ہوا تھا جب ان کے قلم نے بھی زمین زادوں کے لیے “دہشت گردی” کا لفظ کہیں سے ڈھونڈ نکالا ، مجھے نہیں پتہ یہ لوگ اتنی کتابوں اور اصطلاحوں کا بوجھ کیوں اٹھائے پھرتے ہیں جن کا فہم پاکستانی عوام کے فہم عامہ (کامن سینس) کے ساتھ بہہ جاتا ہے اور وہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ بنتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور بڑا نام پروفیسر عاصم سجاد ہے جن سے جب میں نے یہی سوال کسی لٹریری فیسٹیول میں گپ شپ کے دوران کیا کہ آپ کی کتاب جو کہ کامن سینس پہ لکھی گئی ہے اس میں عوام کی کامن سینس پہ تو بات ہوئی ہے لیکن ہمارا سوال عوام کی کامن سینس سے بڑھ کر پاکستانی اکیڈیمیاء کی کامن سینس پہ بنتا ہے جن کا کہنا یا دوسرے الفاظ میں اکیڈیمیا و ریسرچ سے تعلق کی بنیاد عقل صریح کا دعوی برتتے ہیں ان کی کامن سینس ریاستی پروپیگنڈہ سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟ وہ شعوری یا لاشعوری طور پہ ففتھ جنریشن وار میں سپاہی کا کردار کیوں ادا کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کے اپنے ایک پیراگراف کا حوالہ بھی اس بارے میں موجود ہے۔ جب وہ بلوچ قوم کے حوالے سے ایک کتاب پہ تبصرہ کرتے ہوئے یہی بات دوسرے انداز سے دہراتے ہیں کہ ریاست معاملات کو حل کرے وگرنہ اس سے “دہشت گردی” پھیلے گی۔

یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہےکہ اکیڈیمیاء میں اصطلاحات بہت اہم ہوتی ہیں آپ کسی قوم کو بطور قوم کس طرح دیکھتے ہیں ان کی مزاحمت کو کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے آپ کونسی اصطلاحات وضع کرتے ہیں اور وہ اصطلاحات ریاستی بیانیہ کو کس قدر تقویت دیتے ہیں! یہ سب کچھ نہ صرف اکیڈیمیاء کا حصہ ہوتا ہے بلکہ ففتھ جنریشن وار میں ریاستی جبر کے لیے کارگر ثابت ہوتا ہے۔

جس طرح ہر بندوق نہ اٹھانے والے کو پارساء نہیں کہا جاسکتا بالکل اسی طرح آپ ہر بندوق بردار کو دہشت گرد بھی قرار نہیں دے سکتے، بالخصوص اس وقت جب ایک مزاحمتی تحریک اپنی “شناخت اقدار ، آزادی”اور انسانیت کی بقاء کے لیے کمر بستہ ہو۔ لیکن اکیڈیمیاء میں ایک ایسا ریاستی ڈسکورس بنایا جاتا ہے جہاں قومی جنگ کو نسل پرستی و رجعت پرستی سے جوڑا جاتا ہے یعنی گر کوئی اپنی شناخت ، اقدار اور آزادی کی بات کرے وہ ریاستی ڈسکورس کے دائرے میں نسل پرست ، رجعت پرست ، دہشت گرد ہوگا۔

اور اسی ڈسکورس میں گر کوئی آپ کی شناخت اقدار اور آزادی کو بزور بندوق دبائے ،آپ کی لاشیں مسخ کرے ، آپ کو گوانتا موبے جیسے عقوبت خانوں میں ٹارچر کرکے پاپند سلال کرے ، آپ کے پیاروں کو پتہ ہی نہ ہو آپ کہاں ہو؟ وہ لوگ “کاکول گریجویٹ” اور ذہین انسانہوتے ہیں ۔ یہ سارا ریاستی تشدد “اسٹرکچرڈ وائلینس” کے تحت ہورہا ہوتا ہے جس میں بڑے بڑے دانشور ، اہل قلم ، پروفیسرز، لکھاری وغیرہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں ،جو بقول میلکم ایکس جن کا کام مظلوموں سے نفرت سکھانا ہوتا ہے۔

‏‎بلوچستان میں ادبی فیسٹیولز ریاستی ففتھ جنریشن وار کے لیے کارآمد ثابت ہورہی ہیں۔ ادبی فیسٹیولز جن میں کم و بیش شغل میلہ کا سماں رہتا ہے۔ تاکہ پڑھا لکھا پنجاب کی طرح پڑھا لکھا بلوچستان کا امیج پیدا کرسکے وہاں “پبلک ریلشن شپ” کے لیے اشرافیہ کے ایسے نمائندوں کو دعوت دینا، یا ریاست کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بیوروکریٹس کو دعوت دینا ، حتیٰ کہ “انسانی حقوق” جیسے حساس موضوعات پہ ریاست کی وکالت کرنے والے وکیلوں کو دعوت دینا دراصل قابض ذہنیت کی گرفت میں ہونے کی علامات ہیں۔

اس نوآبادیاتی ذہن سے چھٹکارہ پانا یہاں کے ادیب و دانشور کا کام تھا لیکن یہاں کے ادیب و دانشور خود فکری بانجھ پن کا اس قدر شکار ہیں کہ وہ انگریزی نثر ، پاکستانیت، ٹائی پینٹ ، بیوروکریٹک ذہنیت میں کالونائزیشن جیسی موذی بیماری کا علاج کرنا چاہ رہے ہیں۔غلامی کی اس سے بدترین شکل اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں کا ادیب دانشور ریاستی اشرافیہ، کی موجودگی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔

‏‎ہے مشقِ سخن جاری
‏‎‏
چکی کی مشقت بھی
‏‎‏
اک طرفہ تماشا ہے
‏‎‏
حسرت کی طبیعت بھی

Comments are closed.