جدید دنیا اور مسلمانوں کی فکری آوارگی

سید نصیر شاہ

54a4ffe901d2d

مذہب کوئی بھی ہواس کی تعلیمات کا بڑا حصہ ان لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہوتا ہے جو اس کے اولین مخاطب ہوتے ہیں اس طرح وہی مخصوص ماحول اور وہی مخصوص معاشرت اس کے پیش نظر رہتی ہے۔ مگر وقت بدلتا ہے اس کے ساتھ معاشرتی ماحول بھی بدلتا ہے اور نئے معاشرتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں نئے مسائل نیا حل مانگتے ہیں۔ اہل مذہب چکراجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے دعویٰ کررکھا ہوتا ہے کہ ان کا مذہب ’’خدائے علیم وخبیر‘‘ اور’’حکیم دانا وبینا‘‘ کانازل کردہ ہے اس لئے اس میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔
یہاں مذہب پرست دوفرقوں میں بٹ جاتے ہیں ایک فرقہ کے لوگ ’’حال کے ماضیائی‘‘ لمحہ میں جی رہے ہوتے ہیں وہ مذہبی تعلیمات کی ان ہی تعبیرات سے چمٹ جاتے ہیں جو انہیں اسلاف کی طرف سے ورثہ میں ملی ہوتی ہیں وہ اس مشقت میں جُت جاتے ہیں کہ وقت کو دھکیل کر سینکڑؤں سال پیچھے لے جائیں مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا اس لئے حال کو ماضی بنادینے کی دھُن میں زمانہ بھر سے لڑائی مول لے بیٹھتے ہیں۔
کچھ دوسرے لوگ ہوتے ہیں مذہب میں تجدیدواجتہاد کادروازہ کھلا ہے اس لئے اجتہاد سے نئے مسائل کا حل تلاش کیا جائے جو مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہو وہ اجتہاد کی محنت میں دل ودماغ کی تمام توانائیاں کھپانے لگتے ہیں الفاظ کونئے معانی پہناتے ہیں اور پرانے احکام کو کھینچ کھا نچ کرنیا مفہوم دیتے اور اپنے زمانے کے مطابق مطالب برآمد کرنے لگتے ہیں۔
سچ پوچھےئے تو تجدیدواجتہاد کے علم بردار تقلید جامدپر جم کر بیٹھ جانے والوں سے زیادہ مشکل میں پھنس جاتے ہیں ایک توان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہوتا کہ ’’خدائے علیم وخبیر‘‘ کوتوعلم ہونا چاہیے کہ فلاں زمانہ میں اس قسم کے مسائل پیدا ہوں گے پھر اس نے خود ہی ان مسائل کا حل کیوں نہیں بتادیا اور مشقت مجتہدین کے لئے رکھ دی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ مذہب نے تو کتاب کے ساتھ نبی بھی بھیجا تھا اور اس کانام لے کر بتا دیا تھا کہ اس کی تعلیمات خداکے احکام کی صحیح تشریح ہیں مگر اس مجتہد کے پاس کون سی برہان ہے جس سے آدمی تسلیم کرلے کے اس کی متعین کردہ تصریحات اور ہدایات درست اور واجب العمل ہیں۔ آخر اس ایک متعین شخص کے پاس کون ’’سی سند یا ’’تائیدربانی‘‘ہے جس سے اُسے تعبیرات مذہبی میں اٹھارٹی تسلیم کیا جائے
پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے اجتہاد کوکب تک واجب العمل رہنا ہے اور کب اس کی مدت ختم ہونی ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک مجتہد کے اجتہاد کو قیامت تک کے لئے واجب العمل مان لیا جائے کیونکہ بقول مولانا مودودی ’’مجتہد خواہ کتنا ہی باکمال ہوزمان ومکان کے تعینات سے بالکل آزاد نہیں رہ سکتا اور نہ اس کی نظر تمام ازمنہ واحوال میں تمام حالات کے مطابق ہے‘‘ (تفہیمات حصہ دوم ایڈیشن1957ء ص246)۔
غرضیکہ مجتہد کے متعلق بیسیوں سوالات اٹھتے ہیں جو کل بھی بے جواب تھے اور آج بھی بے جواب ہیں وہ حضرات جنہیں ائمہ مجتہد بن تسلیم کیا گیا ہے یعنی امام ابوحنیفہ، امام مالک شافعی، امام احمدبن حنبل، امام جعفر صادق ان میں سے اسی کے مسلک کو زیادہ تائیدملی جس کی پشت پر کسی حکومت کاہاتھ تھا۔ وگرنہ اسی دور میں اور بھی بہت سے لوگ تھے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ’’صاحب مذہب‘‘ اور مجتہد تھے آج علماء کا ایک بڑا گروہ کہتا ہے اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔
مثال کے طور پر مشہور درس گاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی جمیل احمد تھانوی کافرمان ہے ’’یہ طے شدہ بات ہے کہ تحقیق وتفتیش کاکام پہلی صدی، دوسری صدی اور تیسری صدی ہجری میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اسی کانام فقہ اسلامی ہے جو ائمہ کی تحقیقات کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا اگر تحقیقات اسلامی سے ایسے مفہومات مراد ہوں جو مکمل اور تصحیح شدہ موجودہ دور کی تحقیق اگر اس کے مطابق ہے تو بلا ضرورت ہے اور اگر تحقیق اس کے خلاف ہے تو مردود ہے اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے‘‘ (بحوالہ ہفت روزہ ’’ایشیاء‘‘ 14اگست1978ء)۔
اس کے برعکس علامہ اقبال اپنے خطبات میں اجتہاد پر زور دیتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ بہتر ہے مسلمان حکومت جو مجلس شوری ٰبنائے وہ متفقہ فیصلہ سے اجتہادکرے ۔اس بحث کی اگر مزید تفصیل میں جائیں تو ہم اصل موضوع سے دور نکل جائیں گے۔
ہم یہ بتارہے تھے کہ اجتہاد والے تقلید جامد والوں سے زیادہ پیچیدگیوں میں الجھ جاتے ہیں جو لوگ اجتہاد کی ضرورت پر زوردیتے ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب کی بنیادی کتاب یعنی کلام الٰہی میں صرف اصولی احکام آئے ہیں جزئیات پر زمانہ کے مطابق مجتہد سوچ سمجھ کر مرتب کرتا ہے مگر جیسا کہ آپ نے مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب کے بیان میں دیکھا اہل تقلید کے نزدیک جزئیات تیسری صدی ہجری تک جس طرح مرتب کی جاچکیں ان ہی پر عمل واجب ہے ۔
اب مفتیان عصر موجود کاکام یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر ان ہی متعین کردہ جزئیات کی روشنی میں فتویٰ صادر کریں۔ ان اہل تقلید میں بھی اختلاف ہے شیعہ مسلک تو بالکل جدا گانہ ہے اور وہ الگ بحث کا متقاضی ہے ۔اس لئے سردست ہم اہل سنت کہلانے والے حضرات کی بات مکمل کریں گے۔ ان حضرات میں ایک فرقہ تو وہ ہے جسے اہل حدیث کہتے ہیں ان کے نزدیک ائمہ فقہ کی کوئی حیثیت نہیں، خدانے صرف اپنے احکام کی اور رسول کے احکام کی اطاعت فرض قراردی ہے، کہیں ابو حنیفہ ومالک وغیرہ کا نام نہیں لیا۔
مقلدین کہتے ہیں ائمہ فقہ ہی کتاب وسنت کے صحیح عالم تھے انہوں نے وسیع اور بیشتر صورتوں میں باہم متناقض ومتضاد روایات میں سے جس روایت کو چھانٹ پر کھ کرصحیح سمجھااسی کو بنائے استدلال بنایا اب ہم میں سے کوئی اتنا بڑا عالم کتاب سنت ہے نہ تقویٰ واحتیاط میں ان کا ہمسر، اس لئے ان کوہی تقلید میں نجات ہے چونکہ ان مسالک کو کبھی کسی نہ کسی حکومت کی قوت نافذہ کی پشت پناہی حاصل رہی اس لئے عوام میں سے کم یا زیادہ افراد آج بھی ان کے قائل ہیں۔
ان کے مقابلہ میں فرداً فرداً جن لوگوں نے اجتہاد کیا ان کے سامنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ “جدید دنیا” کی اصطلاح مغربی تہذیب کے غلبہ کے بعد پیدا ہونے والی دنیا کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ دنیا مسلمانوں کے لئے بہت سے مسائل لائی۔ ہم یہاں ایک دوکا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔

غلام لونڈی قدیم سے چلے آتے تھے یونان کو جس وقت اپنی حکمت ودانش پر ناز تھا اور وہ سقراط وافلاطون وارسطو پیدا کررہا تھا ۔اس وقت یونان کاپورا معاشرہ غلاموں سے پٹاپڑا تھا اور حکمائے یونان اسے تذلیل انسانیت نہیں سمجھتے تھے۔ ایک یونان کی بات نہیں غلام داری کانظام ساری دنیا میں بر سر عمل تھا اور ہر معاشرہ میں ان کی خرید و فروخت کے لئے بھیڑ بکری کی طرح انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں۔
اسلام تکریم انسانیت کاعلم برداربن کر آیا لیکن اس معاشرہ میں بھی غلاموں اور لونڈیوں کا رواج عام تھا۔ اسلام نے ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت کی اور گناہوں کے کفارے کے طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے اس طرح بہت کم غلام آزاد ہوئے لونڈیوں کے ساتھ بغیر نکاح تمتع جائز تھا۔ نکاح کے سلسلہ میں یہ قیدتو تھی کہ آزاد عورتوں میں سے بیک وقت چارتک بیویاں رکھی جاسکتی ہیں لیکن لونڈیوں کے لئے کوئی تعداد مقرر نہیں تھی اور بیک وقت کئی لونڈیاں رکھی جاسکتی تھیں۔
غلاموں اور لونڈیوں کی خریدو فروخت بھی جائز رہی اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہ غلام جنگی قیدی ہوتے تھے ان میں سے کئی اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہوتے اور اپنی قابلیت اور وفاداری کی بنیاد پر بادشاہوں کے منظور نظر ہوجاتے اور تخت حکومت پرقابض بھی ہوتے رہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایک دور آیا جس میں یکے بعد دیگرے غلام بادشاہ بنتے رہے اس دور کو’’ممالیک‘‘ کا دور کہا جاتا ہے خود ہند وستان میں ایک دور کو’’ خاندان غلاماں‘‘ کا دور کہا جاتا ہے اس میں قطب الدین ایبک اور غیاث الدین بلبن جیسے نامور بادشاہ ہوئے یہ غلام ہی تھے۔ اس طرح مسلمان ملکوں میں غلام داری کانظام بڑی مضبوطی سے قائم رہا اور غلاموں، لونڈیوں کے بازار سجتے رہے۔ مغرب بھی یہ کچھ کرتا رہا۔
جب انگریز نے ’’غلام داری‘‘ کو قابل نفرت نظام قراردیا تو ہندوستان میں ایسے مفکرین اسلام پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن سے ثابت کرنا شروع کیا کہ اسلام میں غلامی کی ممانعت ہے۔ ان لوگوں نے یہ دلائل دئیے کہ قرآن میں غلاموں اور لونڈیوں کا ذکر صیغہ ماضی کے طور پر آیا ہے چونکہ معاشرہ میں یہ لوگ رچے بسے تھے اور یک دم انہیں آزاد کردینا بحران پیدا کرنے کے مترادف تھا اس لئے انہیں آہستہ آہستہ آزاد کرتے جانے کی ترغیب دی گئی۔

سرسید کے مکتب فکر کے لوگ یہی کہنے لگے ۔علامہ اسلم جیراجپوری نے’’تعلیمات قرآن‘‘ نام کی کتاب لکھی تو اس میں کہا قرآن نے ’’سورہ محمد‘‘ میں قوانین جنگ بیان کرتے ہوئے کہہ دیا ’’تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہوتو گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑدو چاہے فدیہ لے لو‘‘ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)۔
علامہ اسلم جیراجپوری اور ان کے ساتھی علامہ غلام احمد پرویز نے اس سے یہ استدلال کیا کہ جنگی قیدیوں کے متعلق صاف کہہ دیا گیا ہے کہ’’ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دویا احسان دھر کر چھوڑ دو‘‘ تیسری کوئی صورت نہیں گویا خدا کا منشا یہ ہے کہ انہیں ہرحال میں چھوڑنا ہے آج بھی لوگ کہتے ہیں اسلام غلامی کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ اسلم جیراجپوری اور غلام احمد پرویز کا نام نہیں لیتے لیکن ان کی اسی بات کو اس طمطراق سے دہراتے ہیں جیسے یہ ان کی اپنی تحقیق ہو۔
بہرحال یہ ان لوگوں کا اجتہاد تھا جنہیں’’منکر حدیث کہا جاتا ہے۔ اہل تقلید کہتے ہیں یہ آیت شاید ابتدائی حکم کے طور پر تھی جب اسلام کو زیادہ زور اور قوت نصیب نہیں ہوئی تھی اور جب لڑائی اُن قریش مکہ کے خلاف تھی جن کے لئے بالخصوص مسلمان مہاجرین کے دلوں میں کسی نہ کسی وابستگی کے باعث نرم گوشے تھے۔ مثال کے طور پر جنگ بدر ہے جس میں کفار کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے جنگی قیدیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور آپ کے داماد بھی شامل تھے۔
ان حضرات کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہوگئی تھی۔ احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ قرآن’’کنزالایمان‘‘ کے حاشیہ نگارمولانا نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں ’’مشرکین کے اسیروں کا حکم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا مملوک (غلام) بنالیا جائے اور احساناًچھوڑنا اور فدیہ لینا جو اس آیت میں مذکور ہے وہ حکم سورہ برات کی آیت ’’اقتلوالمشرکین‘‘ سے منسوخ ہوگیا‘‘ (حاشیہ نمبر 3زیرآیت4/47) سورہ برات جس آیت کو اس آیت کاناسخ قرار دیا گیا ہے اس کا ترجمہ دیکھ لیجئے اس میں کیا گیا ہے’’تو مشرکوں کو ماروجہاں پاؤ اور انہیں پکڑواور قیدی بنالو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو‘‘(5/9) اس آیت میں فدیہ لے کر یا احساناََ چھوڑنے کا کوئی ذکر نہیں بس قیدی بنالینے کاحکم ہے پس یہی اصل حکم ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد اسلام کی طرف رجوعکی جو تحریکیں چلیں ان میں ایک تحریک مولانا مودودی نے بھی شروع کی جس کانام ’’جماعت اسلامی‘‘ رکھا۔ مولانا مودودی نے اپنے ماہنامہ ترجمان القران میں علامہ اسلم جیراجپوری کی تصنیف ’’تعلیمات قرآن‘‘ میں چھیڑے گئے موضوع ’’غلام اور لونڈیاں‘‘ پر سخت تنقید کی خود حضور کے عمل اور تعامل صحابہ کے ساتھ مسلمانوں کی پوری تاریخ کو گواہ بنا کر یہ ثابت کیا کہ اسلام میں غلام اور لونڈیوں کی کوئی ممانعت نہیں بعد میں ان کایہ مضمون ان کی کتاب تفہیمات حصہ دوم میں شامل کیا گیا۔
انہوں نے صاف کہا کہ اسلم جیراجپوری اور اس قبیل کے دوسرے لوگ جو غلام اور لونڈیوں کا عدم جواز قرآن حکیم سے ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ انگریز کے افکار سے مرعوب ہیں اور ان کا اسلام معذرت کواہانہ ہے۔ ابراہام لنکن نے جب یہ تاریخی جملہ کہہ کر غلام داری کو ختم کرنے کی بات کی کہ
’’As I don’t want to be a slave, I don’t want to be a master ‘‘
اور ’’یواین او‘‘ کے چارٹر میں انسانی غلامی کوممنوع قراردے دیا گیا تو بھی مولانامودودی اسلام میں غلام لونڈیوں کا جواز ثابت کرتے رہے۔ مولانا مودودی اپنی مشہور تفسیر قرآن’’تفہیم القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں ’’جو عورتیں جنگ میں گرفتارہوں حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کردے، چاہے ان سے فدیہ لے چاہے ان کا تبادلہ مسلمان قیدیوں سے کرلے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کردے ‘‘ (تفہیم القرآن جلد دوم مطبوعہ1951ء صفحہ340)۔
گویا مولانا مودودی ’’فدیہ لے کر چھوڑ دینے یا احساناً چھوڑ دینے ‘‘ والی آیت کو مولانا نعیم الدین مرادآبادی اور ان کے ہمنوادیگر علماء کی طرح منسوخ نہیں کہتے وہ اسے بھی باقی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں اگر صورت حال یہ ہے کہ حکومت احساناً’’ نہیں چھوڑ سکتی فدیہ بھی ادانہیں کیا جاتا تو انہیں اپنے سپاہیوں میں تقسیم کردے ۔ ان عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھنے کے سوال پر مولانا فرماتے ہیں ’’جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لئے (جب کہ ان کا تبادلہ ہو اور نہ فدیہ وصول کیا جاسکے) اس سے بہتر اور کیا حل ہوسکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دے دی جائے اس کے ساتھ اس شخص کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے‘‘ (تفہیم القرآن جلد دوم مطبوعہ اگست1951صفحہ323)۔
لونڈیوں کے سلسلہ میں تعداد کی بھی کوئی پابندی نہیں اور ان کی خرید وفروخت بھی جائز ہے (ایضاََ ص323-24) مولانا نے اپنے خیال کے مطابق ’’حوروں‘‘ کی بھی وضاحت کردی ان سے سوال کیا گیا کہ کفار کی جو بچیاں کم سنی میں فوت ہوجاتی ہیں انہیں جنت میں کیا بنایا جائے گاتو انہوں نے جواب دیا’’ میں یقین سے نہیں کہا سکتا البتہ میر اخیال ہے کہ جنت میں جو حوریں ہوگی وہ یہی کفار کی لڑکیاں ہوں گی‘‘ (ہفت روزہ ایشیاء14-06-1969)۔
’’
حوروں‘‘ اور ’’بیویوں‘‘ کی حدودکار بھی مولانا نے بتادیں فرماتے ہیں’’ یہ حوریں بیویوں کے علاوہ ہوں گی بیویاں جنتی مردوں کے ساتھ محلات میں ہوں گی لیکن جب وہ پکنک منانے کے لئے باہر جائیں گے تو ان کی سیرگاہوں میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوں گے جن میں حوریں ان کے لئے لطف و لذت کاسامان فراہم کریں گی‘‘ (تفہیم القران جلد پنجم ص 35)۔
یہ باتیں اس وقت کہی جارہی ہیں جب جدید دنیا غلامی کو بین الاقوامی طور پر ممنوع قرار دے چکی ہے۔ مولانا مودودی کے تربیت یافتہ ڈاکٹر اسرار احمدہیں اب وہ جماعت اسلامی سے الگ ہوکر اپنی ایک مذہبی جماعت بنالی جس کے وہ خود ہی امیر تھے۔ ان سے غلام لونڈیوں کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ عجیب بد حوا سانہ جواب دیا فرماتے ہیں ’’قرآن میں اس کے (غلامی کے) خاتمے کی کوئی آیت نہیں لیکن اسلام کے نزدیک غلام بنانا شرک ہے‘‘؟؟ لیکن لونڈیوں کے معاملہ میں تمتع کی اجازت ہے نکاح ضروری نہیں‘‘ (روز نامہ ’’جنگ‘‘ لاہور مورخہ 12فروری1983ء)
بھٹو صاحب کے دور میں جمیتہ العلمائے اسلام کے مولانا نعمت اللہ صاحب قومی اسمبلی کے رکن تھے انہوں نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا’’ غلامی کو منسوخ کرنا خلاف اسلام ہے اس لئے جو شخص ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ایسا نتظام کیا جائے کہ کم ازکم ایک لونڈی رکھ سکے‘‘ (پاکستان ٹائمز1-3-1973) ۔
اسلم جیرا جپوری اور غلام احمد پرویز نے جس آیت سے استدلال کیا ہے اس کے جواب میں علماء نے کہا’’ اگر غلامی کو ممنوع ٹھہرانا ہوتا تو خدا نے صاف کہہ دیا ہوتا غلامی ممنوع ہے اُسے سیدھی بات کرنے کا طریقہ بھی آتا ہے یہ کہ فدیہ رکھ کر چھوڑ دو یا احساناً کہہ کر خاموشی اختیار کر لی۔ پوری تاریخ علماکی تائید کر تی ہے۔

علامہ احمد امین مصری یہی بحث چھیڑ کربتاتے ہیں ’’بغداد میں غلام اور لونڈیوں کی تجارت عام تھی ایک بازار کانام ہی ’’شارع دارالرقیق‘‘ (غلاموں کا بازار) تھا۔ غلاموں کی تجارت کرنے والوں کو نخاس کہا جاتا یہ لفظ دراصل مویشیوں کی تجارت کرنے والوں کے لئے تھا، بعد میں غلاموں اور لونڈیوں کے تاجروں کے لئے بولا جانے لگا۔ حکومت کی طرف سے ان پر ایک انسپکٹر مقرر ہوتا تھا جسے ’’قیم الرقیق‘‘ کہتے تھے‘‘ (ضحی الاسلام)۔
قرآن حکیم کی بہت سی آیات میں غلاموں اور لونڈیوں کا ذکر ہے اور ان کے متعلق مسائل بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاََ اگر ایک لونڈی زنا کی مرتکب ہوتو اُسے آزاد عورت سے نصف سزادی جائے وغیرہ، کتب حدیث فقہ کے طویل ابواب غلاموں اور لونڈیوں کے مسائل سے بھرے پڑے ہیں علمائے کرام کی زندگی کا ایک حصہ ان ہی مسائل کو پڑھنے اور سمجھنے میں گزر جاتا ہے وہ کہتے ہیں تفسیر حدیث اور فقہ کا یہ کثیر حصہ اس بات پر تو دریا برد نہیں کیا جاسکتا کہ انگریزوں نے جدید دنیا میں غلامی کو ممنوع قراردے دیا ہے۔
اور انگریزوں سے مرعوب ذہن رکھنے والے چند تجدد پسند قرآن کی ایک آیت کو کھینچ کھانچ کر انگریزوں کی سوچ پر اپنی سبقت دکھانے کے چکر میں وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو آج انگریز کہہ رہا ہے۔ اگر اس آیت کا یہی مفہوم تھا تو صحابہ کرام اور سلف صا لحین سے کیوں پوشیدہ رہا؟ قرآن ہی کی آیت ہے ہمیشہ سے قرآن میں موجود چلی آتی ہے اور مسئلہ بھی ایسا ہے کہ اس سے انسانوں کی کثیر تعداد ہر زمانہ میں متاثر ہوتی رہی ہے۔ لاکھوں انسان جنگوں میں قیدی بنتے اور پھر غلامی کی ذلت میں مبتلا ہوتے رہے ہیں انہیں جنس تجارت بنایا جاتا رہا ہے، جانوروں کی طرح ان کی منڈیاں سجتی رہی ہیں یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ہوتا رہا ہے مگر کسی مجتہد اور کسی فقیہ نے یہ آیت پیش کرکے اس ظلم کو نہیں روکا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماء کے یہ تمام اعتراضات تجدد پسندوں کو خاموش کردیتے ہیں۔ ادھر جدید دنیا میں غلامی کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں۔

جاری ہے۔

2 Comments