بیرسٹر حمید باشانی
عظیم دماغ خیالات پر بات کرتے ہیں، اوسط دماغ واقعات پر گفتگو کرتے ہیں، اور چھوٹے دماغ شخصیات پر بحث کرتے ہیں۔ یہ پرانا اور سنا سنایامقولہ کئی لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان میں یونانی فلاسفر سقراط سے لیکر امریکی سابق خاتون اول علینار روزویلٹ شامل ہیں۔ کچھ لوگ اس مقولے کو کئی دوسرے لوگوں سے بھی منسوب کرتے ہیں ۔ مگر قول کسی کا بھی ہو، اس کے اندر بڑی دانش چھپی ہے۔ جب سے امریکی عوام نے ڈونلڈٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کیا ہے اس مقولے کی ترتیب اور معنی کچھ بدل گئے ہیں۔
دنیا کے بڑے بڑے دماغ چھوٹے دماغوں کی طرح شخصیت پر بحث پر مجبور ہیں۔ یہ دماغ اپنا زیادہ تر وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت پر غور کرنے میں گزار رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی دنیا کے بڑے بڑے دماغوں کو چکراکر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں یہ تاثر دیدیا تھا کہ ان کے بارے میں کوئی شخص یقین سے کوئی پیشین گوئی نہیں کر سکتا۔ وہ کسی موقع پر اپنی مخالف امیدوار کے خلاف کیا رد عمل دیں گے۔ کسی اعتراض یا تنقید پر ان کا کیا رد عمل ہو گا۔ اپنے کسی حامی یا ووٹر کے سوال کا کیا جواب دیں گے۔
ان سب باتوں کے بارے میں کوئی بھی کسی قسم کی پیشن گوئی کر نے کا خطرہ نہیں مول لینا چاہتا تھا۔ ڈونلڈٹرمپ کی گفتگو، انداز گفتگو اور ان کی بدن بولی کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ امریکی اتنے اہم عہدے کے لیے ایسی شخصیت کو منتخب کر لیں گے۔ صرف نوم چومسکی جیسے چند دانشوروں کو یہ خدشہ تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا کے انتخابی کلچر میں مسٹر پرفیکٹ کا تصور بہت پختہ ہے۔
ان ملکوں میں امیدواروں کے بارے میں عام لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ عام طور امیدوار وں کی بہت باریکی سے چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ امیدوار کا ماضی عوامی دلچسبی اور صحافیانہ کھوج کامرکز ہوتا ہے۔ ماضی میں امیدوار کا طرز زندگی کیا رہا ہے ؟ یہ طرز زندگی اشرافیہ کے طرز زندگی سے مختلف یا متصادم تو نہیں رہا ہے۔ ذاتی زندگی میں اس کا کیا کردار اور کیا اخلاق ہے ۔ امیدوار کا بیوی بچوں کے ساتھ کیا سلوک اور رشتہ رہا ہے۔ کیا امیدوار ایک فیملی پرسن ہے ؟ امیدوار کا ذریعہ معاش کیا تھا۔ اس نے کاروبار میں کوئی ناجائز یا نا مناسب طریقے تو نہیں استعمال کیے۔ کیا اس کا کاروبار اشرافیہ کے طے شدہ کاروباری اخلاقیات کے مطابق تھا کہ نہیں۔ امیدوار نے پورے ٹیکس ادا کیے ؟۔ غیرمناسب تجارتی سرگرمیوں سے اجتناب کیا ؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے کئی سوالات عوام کے لیے اہم ہیں۔
مگران میں سے کسی سوال کا بھی درست جواب ٹرمپ کے لیے سودمند نہ تھا۔ ذاتی زندگی سے کاروباری زندگی تک اس پر کئی اعتراضات تھے۔ کچھ اعتراضات بڑا وزن رکھتے تھے۔ کئی داغ اور دھبے تھے۔ عام روایات کے مطابق کوئی سیاست کارشائد ان اعتراضات کی وجہ سے میدان سیاست میں قدم رکھنے کی جرات ہی نہ کرتا۔ مگر ٹرمپ نے ان اعتراضات کو ہنسی مذاق میں اڑایا۔ کچھ اعتراضات پر غصے اور حیرت کا اظہار کیا۔اور چند ایک کے ایسے جوبات دئیے جن کی کوئی توقع بھی نہ کر سکتا تھا۔
مثال کے طور پر ٹیکس کی عدم ادئیگی کو اپنی ذہانت اور ہوشیاری قرار دینا وغیرہ۔ ان سب اعتراضات اور ان کے غیر تسلی بخش جوابات کے باوجودٹرمپ نے وائٹ ہاؤس تک اپنا راستہ بنا لیا۔ یہاں قدم رکھتے ہی اس نے دنیا کے بڑے بڑے دماغوں کی توجہ اپنے طرف مبذول کروائی۔ اپنے غیر متوقع بیانات اور اقدامات کی وجہ سے دنیا کی دلچسبی اور پریشانی کا مرکزبن گئے۔
انتخابات کے دوران بہت سارے دانشور اس بات پر متفق تھے کہ منتخب ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے بارے میں انتہائی سخت پالیسی اختیار کرے گا۔ ان کا پہلا بیان مگر ان توقعات کے برعکس تھا۔ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی لوگوں کو تصوراتی حد تک بہترین لوگ قرار دے دیا۔ اس کے بعد ایک سال تک ان کی افغانستان پرپاکستان سے کھلی اور خفیہ سفارت کاری چلتی رہی۔ اس دوران وہ خود اور دیگر امریکی اہلکار پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں کرداراور قربانی کا ا عتراف بھی کرتے رہے۔
مگر پھر اچانک نئے سال کی صبح موصوف نے ایک بیان داغ دیا۔ یہ بیان دو دھاری تلوار کا وار تھا۔ ایک طرف تو اس نے ان امریکی رہنماؤں کو احمق قرار دیا جو گزشتہ پندرہ سال سے امریکہ کی پاک افغان پالیسی بنانے اور اس پر فیصلے کرنے کے مجاز تھے۔ اس کے خیال میں یہ ان لوگوں کا احمقانہ پن تھا کہ انہوں نے 33 بلین ڈالر کی خطیر رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں پاکستان کوا دا کی۔ دوسری طرف اس نے پاکستانی پالیسی سازوں اور رہنماوں کو جھوٹ اور دھوکہ دہی کا مرتکب قرار دیا ، جنہوں نے اس کے خیال میں اس رقم کے عوض کچھ نہیں کیا تھا۔
ڈونلڈٹرمپ پر گہری نظر رکھنے والوں کی رائے تھی کہ یہ کوئی بڑا سنجیدہ اعلان نہیں ہے۔ امریکی صدر اتنا بڑا اور نازک اعلان ٹویٹر پر کیسے کر سکتا ہے۔ یہ اعلان ایک اعلان ہی رہے گا اور امریکہ اس باب میں کوئی عملی اقدامات نہیں کرے گا۔ مگر آنے والے دنوں میں امریکی وزیر خارجہ ، اقوام متحدہ میں اس کے نمائدوں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمانوں نے صدر ٹرمپ کی اس معاملے میں سنجیدگی کی تصدیق کر دی۔
اس تصدیق کے بعد اب سنجیدہ سوال یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ حسب سابق اس سوال پربھی انہوں نے خاموشی اور رازداری کی پالیسی برقرار رکھی۔ دوسری طرف امریکی عہدے داروں نے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں یہ واضح کیاکہ یہ امداد مشروط طور پر معطل کی گئی ہے۔ اور ان شرائط کے پورے ہونے پر یہ امداد بحال کی جا سکتی ہے۔ جواب میں پاکستان کی فوجی اور سول قیادت نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے، اور اب اس سلسلے میں مزید کوئی شرط پوری نہیں کی جا سکتی۔
تب سے دونوں طرف سے خاموشی ہے ، مگر پس پردہ سفارتکاری جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعطل ختم نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو مشکل صورت حال کاسامنا ہو سکتا ہے۔ امریکہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بہانے پاکستان کے اندر ڈرون حملے کر سکتا ہے، یا پھر افغانستان اور بھارت کے زریعے ان ٹھکانوں پر حملہ کروا سکتا ہے ۔
خارجہ پالیسی پر صدر ٹرمپ کا یہ اضطراری انداز صرف پاکستان بارے ہی نہیں تھا۔ شمالی کوریا پر وہ ایک قدم آگے تھے۔ نیو کلئیر بٹن کے ذکر پر وہ ہیجان کا شکار ہو گئے۔ اور کورین لیڈر کو اس سے بڑے اور خوفناک بٹن پر انگلی رکھنے کی دھمکی دیدی ۔ اگرچہ بعد ازاں پر اسرارخاموشی اختیار کر لی ۔ حالانکہ کئی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وہ شمالی کوریا کی تمام اہم لیڈرشپ کی موت اور ان کے کئی بڑے شہروں کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ ترتیب دے چکے ہیں۔
ایران کے ساتھ نیوکلئیر معاہدے کے سوال پر بھی ان کی پالیسی ڈھل مل یقینی کا شکار ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے اور پھر جاری رکھنے کا عمل اسی کیفیت کا مظہر ہے۔ یروشلم کو لیکر فلسطینیوں کی امداد بند کرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر وہ فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ خاموش سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ پاکستان کوریا، ایران، اور فلسطین کے ساتھ صدر ٹرمپ کے سلوک سے یہ بات عیاں ہے کہ وہ گاجر اور چھڑی کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔
کنیڈین وزیر اعظم نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نا قابل پیشن گوئی شخص ہیں اور ایسا رہنا پسند کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بات صدر ٹرمپ کے ایک پڑوسی اورقریبی حلیف کی حیثیت سے اپنے تجربے کی روشنی میں کہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا مقصد اگر دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو انہیں دنیا کے لیے قابل پیشین گوئی اور قابل اعتماد بننا ہوگا۔ دولت اور طاقت کا دباؤ کم کرناہو گا۔ آئین سٹائین نے بہت پہلے کہاتھا، اور کیا خوب کہا تھا، امن طاقت سے نہیں ، تفہیم سے قائم ہوتا ہے۔
♦