خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم انیس ایرانی حمایت یافتہ جنگجو مارے گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد ان پاکستانی جنگجوؤں کی ہے، جو شام جا کر لڑ رہے ہیں۔
شامی حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق یہ اسرائیلی فضائی حملے تھے، جن کے ذریعے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو ابوکمال نامی ٹاؤن کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ یہ علاقہ صوبہ دیر الزور میں واقع ہے۔ اس تنظیم نے اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر جنگجوؤں میں وہ پاکستانی شہری شامل ہیں، جو صدر اسد کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔
شام کا سرکاری میڈیا اس طرح کے حملوں کو سرے سے رپورٹ ہی نہیں کرتا جبکہ اسرائیل بھی ایسے حملوں کے بعد خاموش ہی رہتا ہے۔ اسرائیل ماضی میں بھی درجنوں مرتبہ شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہفتے کے بعد سے اسرائیل نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف دو دیگر حملے بھی کیے ہیں۔ آبزویٹری فار ہیومن رائٹس لندن میں کام کرتی ہے لیکن شامی خانہ جنگی کے آغاز سے اس نے وہاں معلومات جمع کرنے کا وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے تازہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں، جب اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد ایردن نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ شام سے ایرانی فورسز کو بے دخل کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
شام میں پاکستانی جنگجوؤں کی موجودگی
مبینہ طور پر ایران اپنے حلیف صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے کے لیے اب تک ہزاروں جنگ جو شام بھیج چکا ہے۔ ماضی میں ایران میں سابق فوجیوں کے امور کے سربراہ محمد علی شہیدی محلاتی کا تسنیم نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”مزارات کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے‘‘۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران شام میں نہ صرف اپنے فوجی مشیر بھیج چکا ہے بلکہ افغانستان اور پاکستان سے سینکڑوں جنگجو بھی شام بھیجے گئے ہیں، جو اسد کی فورسز کے ساتھ مل کر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں ‘مزارات کے محافظ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام شام میں شیعوں کے مقدس مقامات کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔
شام میں نہ صرف ایرانی بلکہ پاکستانی، لبنانی حزب اللہ، عراقی اور افغان ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے عسکریت پسند لڑ رہے ہیں۔ ان تمام کی تعیناتی کا مقصد اسد حکومت کی حفاظت کرنا ہے۔ دوسری جانب ایران حکومت ایسے کسی بھی دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ ان کے فوجی شام کی لڑائی میں شریک ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایرانی میڈیا میں نہ صرف ایرانیوں بلکہ افغانیوں اور پاکستانیوں کے ہلاک ہونے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور ان کی تدفین ایران یا شام میں ہی کر دی جاتی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کی اطلاعات کے مطابق شام میں لڑنے والے پاکستانی جنگ جو شیعہ عسکری گروپ زینیبون سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کام شام میں مزار زینب کی حفاظت کے لیے لڑنا بتایا جاتا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق خطے میں ایسے جنگجوؤں کی بھرتیاں ایران کے ذریعے ہو رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی گروپ زینیبون نے آغاز افغان شیعہ عسکری گروپ فاطمیون سے کیا تھا۔
روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق متعدد افغان عسکریت پسندوں کو شام میں لڑنے کے عوض ایرانی شہریت اور ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جب کہ پاکستانی گروپ بھی اسی طرح کی مراعات دینے کا وعدہ کرتا ہے۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو اور پاکستان، ایران کے درمیان تعلقات پر ایک کتاب کے مصنف ایلیکس ویٹینکا کہتے ہیں، ”شیعہ کمیونٹی کے اندر بہت سے گروپ ایسے ہیں، جو اپنی شناخت کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں اور پاسداران انقلاب اسی چیز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘‘۔
dw.com/urdu