قومی ریاست اورمعیادی جزوقتی بندوبست

37777_102498993140969_2268144_nخالد محمود

آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ سعودی وزیرِخارجہ کی آرمی چیف اور وزیرِاعظم سے ملاقاتوں کے بعد 34 ملکی سعودی اتحاد، کو تعاون کی یقین دہانی کرادی گئی ہے۔ان میں 4 شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں تربیت،انٹیلی جینس شےئرنگ،استعدادکار بڑھانے اور جوابی بیانیے کی تشکیل میں ہوگا۔

سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب پاکستانی ریاست شیعہ مخالف بیانیے کی تشکیل میں سعودی وہابی سلفی فرقے کی تکنیکی اور علمی استعداد بڑھائے گی۔ بھلے اس کے نتیجے میں ہماری 20 فیصد شیعہ آبادی میں بے چینی اور اضطراب آسمان کو چھونے لگے اور وہ پھر سے ان کا قتال شروع کر دیا جائے۔

اب تک کے قرائن گواہ ہیں کہ سعودی عرب کو داعش ختم کرنے میں اتنی عجلت نہیں جتنی ایران اور بشارالاسد کوختم کرنے میں ہے۔بلاشبہ جنرل ضیاء کے دور سے ریاستی سطح پر سعودی برانڈاسلام کو جو فروغ بخشا گیا تھاوہ زمانہ طالب علمی کا تھااور اب یہ مملکت خداداد اسی بیانیے کے دفاع میں ایک نہیں ہزاروں ماہرین پیدا کر چکی ہے جنہوں نے اس مملکت کی تزویراتی گہرائی استوار کرنے کیلئے 60 ہزار پاکستانی شہریوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کر دیا۔

کرنل(R ) شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد ایسا کچھ محسوس ہو نے لگا تھا کہ اب، شاید ریاست اس ملک سے فرقہ واریت کا انخلاء چاہتی ہے۔تب دیوبندی اور سلفیوں کو شہادت حضرت عمرؓ منانے کیلئے جلسے کرنے اور ریلی کی اجازت نہیں ملی تھی۔مگر حالیہ ملاقاتوں کے فورا بعد شہروں کے مشہور چوکوں میں اہلِحدیث کانفرنس کی اجازت دے دی گئی ہے۔

غالب امکان ہے کہ انتظامیہ نے جوابی بیانیے کی تشکیل میں مدد کو عملی جامہ پہنا دیا ہے۔ریاست کے اس نوعیت کے مسلسل جزوقتی بندوبست سے ہمارا دھیان خود بخود تاریخ کی طرف پلٹ جاتا ہے۔مہا راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھ فوجی چاندی کے روپے کواپنی زبان میں’’چھلڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ بتایا جاتا کہ رنجیت سنگھ کی مرکزی پنجابی حکومت کو کمزور کرنے میں کمپنی بہادر کی طرف سے مہاراجہ کے حریف مضبوط ٹولوں میں چھلڑ کی ترسیل اور تقسیم کے بندوبست نے پنجاب کی مرکزیت کو، بالآخر ختم کر دیا۔

بعد ازیں اسی پنجاب سے تاج برطانیہ کو،پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں پنجاب کے بیٹوں کے ارزاں خون نے بے پناہ سہارا دیا۔قیام پاکستان کے وقت بھی پنجاب کے مسلمان سپاہی،مکمل طور برطانیہ کے جنگی محاذوں سے واپس نہیں پلٹے تھے ۔مرور زمانہ سے چیزیں اپنی قدیم شکل سے ہٹ گئی ہیں۔اب ریت کے نیچے تیل میں گوندھے ہوئے’’ ریال اور درہم ‘‘انیسویں صدی کے’’ چھلڑ ‘‘پر بہت بھاری ہیں۔بھلے ہمارے پنجاب پولیس کے فرزند اوپر کی کمائی کو آج بھی از رہِ تفنن’’ چھلڑ ‘‘ہی پکارتے ہیں۔

عام پاکستانی شہری اب یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ سوچنا مناسب ہے کہ ہماری ریاست کو کسی بھی قسم کے استعماری ملوکیت اورفرقہ واریت کے مفادات پر مبنی حملہ آور یا جوابی بیانیے کی تشکیل سے ہمیشہ کیلئے توبہ کر لینی چاہئیے؟اور اپنے گھر،اپنی عوام اور اپنے وسائل پر توجہ دے کر دیگر باوقار قومی ریاستوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہیے؟

یاد رہے کہ سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک انڈونیشیا نے اس اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے،یعنی وہ پرائی آگ میں کودنے کو تیار نہیں ہیں۔

2 Comments