آصف جیلانی
امریکا کا وہ تاریخی دور ختم ہوگیا جو پہلی بار ایک افریقی امریکی صدر کے انتخاب سے شروع ہوا تھا ، جس سے وابستہ امیدو ں کی جو کہکشاں ابھری تھی وہ آٹھ سال بعد ناکامیوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئی۔سنہ 2008میں انتخابی مہم کے دوران ، اوباما نے بش کے دور میں قائمکئے گئے گوانتا ناموبے کے عقوبت خانہ کو امریکی تاریخ کا افسوس ناک باب قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد فوراً گوانتاناموبے کو بند کردیں گے ، صدارت کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد انہوں نے اس عقوبت خانہ کے 779قیدیوں کے خلاف مقدمات 120روز کے لئے معطل کر نے کا حکم جاری کیا تھا اور اس کے ایک روز بعد انہوں نے گوانتانامو بے کو ایک سال کے اندر اندر بند کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
اوباما نہ تو اپنی صدارت کی پہلی معیاد میں اور نہ دوسری معیاد میں اپنے اس حکم پرعمل در آمد کرنے میں کامیاب رہے ۔ بلا شبہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی کانگریس کی مخالفت تھی جس میں اوباما کو اکثریت حاصل نہیں تھی ۔ غرض اوباما کے دور کا آغاز ناکامی پر ہوا اور اب بھی اس عقوبت خانہ میں 41قیدی اوباما کے دور پر ماتم کناں ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ عراق کی جنگ کی مخالفت کی بنیاد پر 2008میں اوباماکو انتخابی جیت حاصل ہوئی تھی ، لیکن بر سر اقتدار آتے ہی وہ خود افغانستان کی جنگ میں الجھ گئے اور اسی جنگ کو انہوں نے اپنے نام کر لیا ۔یہی نہیں، لیبیا اور شام کی جنگوں میں بھی پیش پیش رہے، جب کہ ان کے بر سراقتدار آنے کے چند ماہ بعد انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔اس بارے میں خود اوباما کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ انعام انہیں کیوں دیا گیااور یقیناًان لوگون کی روحیں بھی سوال کرتی ہوں گی جو اوباماکے دور میں بمباری اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
ان کے پیش رو صدر بش کے دور میں پاکستان یمن اور صومالیہ میں کل 57ڈرون حملے ہوئے تھے لیکن اوباما کے دور میں ڈرون حملوں میں دس گنااضافہ ہوا،اور تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے ۔اسی وجہ سے اوباما کو ڈرون پریذیڈنٹ قرار دیا گیا۔یہ ستم ظریفی تھی کہ 2009 میں صدارت سنبھالنے کے تیسرے دن ، اوباما نے پاکستان پر ڈرون کے پہلے حملہ کا حکم دیا تھااس کے بعد پاکستان پر کمپیو ٹر کے گیم کی طرح ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کے دور کے اختتام تک جاری رہ
اوباما نے عراق میں جنگ جاری رکھنے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعدد میں زبردست اضافہ کر تے وقت اس کی وضاحت نہیں کہ وہ جنگ کیوں جاری رکھ رہے ہیں جب کہ انہوں نے جنگ کے خاتمہ کو وعدہ کیا تھا۔ نوبیل انعام یافتہ اوباما کے دور میں ہر سال فوج پر 654ارب ڈالر خرچ کئے گئے جب کہ بش کے دور میں سالانہ 19 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔
توقع تھی کہ اوباما اپنے آپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق ثابت کرنے کے لئے مشرق وسطی میں امن کے قیام کرنے میں کامیاب رہیں گے لیکن اسرائیل کی من مانی کاروائیوں اور امریکامیں اسرائیل حامی لابی نے اس مشن میں ناکام ثابت کردیا ۔ حتی کہ ارض فلسطین پر یہودی بستیوں کی تعمیر بھی وہ نہ روک سکے۔یوں دنیا کی سپر طاقت کے صدر ، یکسربے بس ثابت ہوئے۔
بش کے دور میں عراق کی جنگ کے دوران امریکیوں نے اپنے خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لئے ۔ مسلکوں کو آپس میں تشدد پر بھڑکانے کا جو عمل شروع کیا تھا ، وہ اب بھی جاری ہے۔ اوباما نے اس تباہی کی روک تھام کے لئے کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ عراق کو تین علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جن کے نتیجہ میں داعش معرض وجود میں آئی اور پھر شام سے داعش کی سپاہ نے عراق پر حملہ کیا اور موصل پر قبضہ کیا تو اس وقت اوباما نے داعش کی سپاہ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، یوں یہ کہا جاتا ہے کہ داعش کی کامیابیوں کے پیچھے امریکا کا ہاتھ تھا۔
اوباما کے دور میں ، قذافی کو اقتدار سے ہٹانے اور لیبیا کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جو تباہ کن فوجی مداخلت کی اور قبائل میں جو بے حساب اسلحہ تقسیم کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پچھلے پانچ برس سے افرا تفری جاری ہے ۔ دو حکومتیں اور دو پارلیمنٹیں ہیں اور داعش کی سپاہ نے کئی علاقوں پر آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔ ادھر مصر میں انقلاب کے بعد جو منتخب حکومت بر سر اقتدار آئی تھی ، امریکا اور اسرئیل کی شہہ پر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیاجس کے نتیجہ میں سیاسی افراتفری برابرجاری ہے۔ غرض مشرق وسطی اس وقت جتنا خطروں میں گھرا ہوا ہے اوباما کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔
اوباما کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کے حکم پر امریکی نیوی سیلز نے پاکستان کے فوجی چھاؤنی کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی کمین گاہ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ان کے بیٹے خالد، ان کے د وبھائیوں اور اسامہ کی ایک اہلیہ سمیت ہلاک کر کے اسامہ کو کیفر کردار تک پہنچا نے کا وہ پیمان پورا کردیا جو ان کے پیش رو بش نہ کرسکے تھے۔
ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کو بھی اپنی کامیابی قراردیتے ہیں لیکن ٹرمپ کے وائٹہاؤس میں آنے کے بعد اس سمجھوتہ کی منسوخی کا شدید خطرہ ہے ۔
بلا شبہ ، طبی سہولتوں کے بارے میں اوباما کےئر اوباما کے دور کا انقلابی اقدام قرار دیا گیا ہے جس سے دو کروڑ امریکیوں کو فائدہ پہنچا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلا وار اسی نظام پر کیا ہے جس کے بعد خطرہ ہے کہ اوباما کی یہ کامیابی خاک میں مل جائے گی۔
روشن خیال افریقی امریکی صدر اوباما کے دور کے آغاز پر امریکی عوام کو امید تھی کہ اوباما کے دور میں شہری آزادیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور امریکی افریقی عوام کو روزگار کے میدان میں ترقی کے وافر مواقع ملیں گے اور وہ نسلی تعصب کے حصار سے نکل سکیں گے لیکن پچھلے آٹھ سال کے دوران ان کی ساری امیدیں دم توڑ بیٹھیں ۔ سیاہ فام افراد نے اس دوران اپنے خلاف تعصب کا غیر معمولی طوفان اٹھتا دیکھا اور پولیس کے تشدد نے بھی بری طرح سے سر اٹھایا۔ پھر اسلحہ کا مسئلہ بھی ایسا بے قابو ہوا کہ اوباما اس کے سامنے بے بس نظر آئے۔
بہر حال ان ناکامیوں کے باوجود اوباما کا نام ہمیشہ امریکی تاریخ میں جاویداں رہے گا کہ وہ پہلے افریقی امریکی تھے جو صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ ایسے صدر کے بر سراقتدار آنے کے بعد ، امریکی عوام ان سے موازنہ کریں گے تو ان کی ناکامیوں کے باوجود اوباما کو روشن خیال اور ترقی پسند صدر کی حیثیت سے یاد رکھیں گے۔